Tuesday, June 18, 2013

شرعی عذر کی حالت میں روزے کے احکام

 شرعی عذر کی حالت میں روزے کے احکام
ناظم اشرف مصباحی
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید نے قیامت تک آنے والے مسائل کا حل پیش کر دیا ہےاور ایسے راہنما اصول وضع کردیے ہیں جن کے ذریعے تمام اَدوار کے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ روزے سے متعلق بھی احکامِ خداوندی میں بتایا گیا کہ روزہ رکھو، یہ تمھاری بہت سی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج ہے یا ان امراض کے خلاف جسمانی قوت نے ِ مدافعت بڑھاتا ہے،اپنے اندر بے شمار روحانی، نفسیاتی اور طبی فوائد رکھتاہے۔ روزے کی طبی افادیت کی طرف نہایت مختصر مگر بلیغ اشارہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا:
صوموا تصحوا (مجمع الزوائد، ج ۵، ص ۳۴۴، کنزالعمال، رقم الحدیث :۲۳۶۰۵)
’’روزے رکھو، تندرست ہوجائو گے‘‘۔
ماہرین  طب لکھتے ہیں کہ: ’’روزہ جسم میں پہلے سے موجود امراض و آلام کا علاج بھی ہے اور حفظ ماتقدم کی ایک تدبیر بھی۔ روزہ رکھنے والا صرف بیماریوں سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ ان کے لاحق ہونے کے ممکنہ خطرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کا طبی سبب یہ ہے کہ روزے سے قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے‘‘۔(حکیم محمد سعید، عرفانستان، کراچی ہمدرد فائونڈیشن پریس، ص۱۷۵)
اگر روزہ دار ان چیزوں کو ملحوظ رکھے جن کا طبعی اور شرعی طور پر ملحوظ رکھنا ضروری ہے تو اس سے دل اور بدن کو بے حد نفع پہنچے گا۔(محمد کمال الدین حسین ہمدانی، ڈاکٹر حکیم سید، اسلامی اصولِ صحت، علی گڑھ: حی علی الفلاح سوسائٹی، اشاعت اول ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ئ، ص ۴۲)
ڈاکٹر محمد عالم گیر خان سابق پروفیسر آف میڈیسن، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور بھی روزے کو اَن گنت طبی فوائد کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو(، اسلام اور طب جدید،
ص ۱۲)۔
تُرک اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بہ تدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ ایک طبی معجزہ ہے۔ (بلوک نور باقی، ڈاکٹر، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، مترجم:سیدمحمد فیروز شاہ، ص ۱۰۳)
گویا روزہ ہمیں صحت مند رکھنے، ہمارے امراض کو دفع کرنے اور مختلف بیماریوں کے خلاف ہماری قوتِ مدافعت بڑھانے میں انتہائی ممدومعاون ہے۔
روزہ کے ان تمام اسرار و فوائد کے باوجود  بسا ا وقات کچھ  ایسے عارضی مسا ئل درپیش ہوتے ہیں، جن کی وجہ  سے روزہ  رکھنے  میںشدید ضرر کا اندیشہ ہو مثلاسفر پر جانا ہے یا پھر کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہے تو اس صورت میں اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اس کی قضا کرلے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ  وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ  (البقرہ ۲:۱۸۴)
پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے دوسرے دنوں میں رکھ لے اور جو لوگ اسے بہت مشکل سے ادا کرسکیں، وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ دیں۔
حدیث پاک میں ہے کہ حضرت  حمزہ بن عمرو اسلمی بہت روزہ رکھا کرتے تھے ،انہوں نے نبی کریم ﷺ سے  دریافت کیا ،کہ سفر میں روزہ رکھوں؟ ارشاد  فرمایا:چاہو رکھو چاہو نہ رکھو۔(بخاری،ج:۱،ص:۵۶۳،مکتبہ دیوبند)
یہاں سفر سے مراد سفر شرعی ہے یعنی اتنی دور جانے کے ارادے سے نکلے کہ یہاں سے وہاں تک تین دن کی مسافت ہو،اگرچہ  وہ سفر کسی ناجائز کام کے لیے ہو۔(در مختار ،کتاب الصوم ،فصل فی العوارض،ج:۲،ص:۱۲۶،مکتبہ فیض القرآن سہارنپور،سن ندارد)
سفر شرعی کی مقدار تقریبا ۹۲ کیلو میٹر ہے اور ظاہرہے کہ اس زمانے میں ٹرین کے ذریعے یہ مسافت چند گھنٹوں میں اور ہوائی جہاز کے ذریعے اس سے بھی کم وقت میں طے ہو جا تی ہے ،جس میں زیادہ تکلیف اور ضرر نہیں ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ  کیا ایسی صورت میں بھی روزہ چھوڑنا جائز ہوگا ؟فقہ کی کتابوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس صورت میں بھی  روزہ ترک کر سکتا ہے البتہ  رکھنا بہتر اورافضل ہے۔در مختار میں ہے:‘‘مسافر اور اس کے ساتھ سفر کرنے والے کو روزہ رکھنے میں ضرر نہ پہنچے تو سفر میں روزہ رکھنا بہتر ہےورنہ نہ رکھنا بہتر ہے۔’’(کتاب الصوم ،فصل فی العوارض،ج:۲,ص:۱۲۷)
یہی حکم دودھ پلانے والیوں ،حاملہ خواتین اور ان کے مخصوص ایام کے متعلق بھی ہے۔
حدیث میں آتا ہےکہ: ‘‘اللہ تعالی نے مسافر،دودھ پلانے والی اور حاملہ سے روزہ معاف فرما دیا۔’’(ترمذی،:ح:۷۱۵،عن انس بن مالک)
حمل والی یا دودھ پلانے والی اسی وقت روزہ چھوڑ  سکتی ہے جبکہ اسے اپنی یا بچے کی جان جانے کا  صحیح اندیشہ ہو(ملخصا :بہار شریعت)
  بھوک اور پیاس ایسی ہو کہ ہلاک کا خوف صحیح یا نقصان عقل کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے۔(فتاوی ہندیہ،کتاب الصوم،الباب الخامس فی الاعتذار،ج:۱،ص:۱۲۶،ذکریہ بکڈپو،سن ندارد)
جن لوگوں نے ان  عذروں کے سبب روزہ توڑا ،ان پر فرض ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھیں اور ان قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں مگر حکم یہ ہے عذر ختم ہو جا نے کے بعد دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے قضا رکھ لیں۔
حدیث میں آیا ہے:‘‘جس پر اگلے رمضان کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے تواس  رمضان کے روزے قبول نہ ہوں گے۔’’(مسند امام احمد بن حنبل بحوالہ بہار شریعت،حصہ :۱،ص:۱۰۰۴)
اور اگر روزے نہ رکھے اور دوسرا رمضان آگیا تو اب پہلے موجودہ رمضان کے روزے رکھے اور قضا روزے بعد میں  رکھے۔(در مختار ،ج:۲،ص:۱۲۷)
اور اگر کوئی شخص انتہائی بڑھاپے اور کمزوری کے باعث یا پھر کسی ایسی بیماری کے باعث جو بخار وغیرہ کی طرح وقتی نہیں ہے بلکہ مستقلاً انسان کولاحق ہو گئی ہے اور روزہ رکھنے سے اس میں شدت کا اندیشہ ہے ۔تو ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دینا ہوگا۔ (ملخصااز بہار شریعت،ج:۱،ص:۱۰۰۵،مکتبۃالمدینہ۲۰۰۸)
موجودہ دور میں سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ طبی تحقیقات کے باعث ہرقسم کی بیماری کو کم یا زیادہ کرنے والے عوامل سامنے آچکے ہیں۔ اس لیے مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو ماہرین طب کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔کیوں کہ شرع مطہر نے روزہ چھوڑنے کا حکم اسی وقت دیا ہے جب کہ ضرر کا گمان غالب ہو اور گمان غالب کےسلسلے میں صاحب رد المحتار فرماتے ہیں : ‘‘گمان غالب کی تین صورتیں ہیں:
(۱) ضرر کی ظاہری صورت پائی جائے
(۲) یا اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے
(۳) کسی  ماہر غیر فاسق طبیب نے اس کی خبر دی ہو۔’’(رد المحتار ،ج:۲،،ص۱۲۶)
اس زمانے کی اسلامی اور مذہبی صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ایک تو مسلمان ڈاکٹر ہی مشکل سے ملتے ہیں پھر ان کا غیر فاسق ہونا تقریبا نایاب ہے۔ ایسی صورت میں جب گمان غالب کی تینوں قسموں میں سے کوئی نہ پائی جائے،نہ ظاہری صورت موجود ہو ،نہ ذاتی تجربہ ہو اور مسلمان غیر فاسق ڈاکٹربھی نہ مل سکےاور کسی غیر مسلم ماہر ڈاکٹر کی بات پر گمان غالب حاصل ہوجا ئے تو اس پر عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر سیداسلم اور ڈاکٹر شاہد اطہر نے مختلف بیماریوں کے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں تفصیلاً بتایا ہے(جو انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے) اس کا خلاصہ ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں ؛ لہذا کوئی یہ نہ کہے کہ ڈاکٹروں کو شرعی احکام کی کیا خبر؟
ہاں یہ کوشش ضرور کرنا چاہیے کہ کو ئی مسلمان باشرع ڈاکٹر تلاش کرکے اسی کے مشورے پر عمل کیا جائے۔  وہ خلاصہ یہ ہے:
۱- ذیابیطس کے مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں، انھیں روزے نہیں رکھنے چاہییں کیونکہ ان کی ذیابیطس کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریضوں کو ان مشکلات کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایسے مریض جو صرف خوراک سے ذیابیطس کو کنٹرول  کر رہے ہیں، وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ان کے مرض پر روزہ اچھے اثرات مرتب کرتا ہے۔
۲- دمے کے مریض جن کا مرض معمولی ہے، وہ تکلیف کی صورت میں بغیر روزہ توڑے سانس کے ساتھ والی ادویہ (inhaler) استعمال کرسکتے ہیں یا دیرپا اثر والی دوائیں افطار کے بعد اور سحری سے قبل لے سکتے ہیں۔
۳- بلند فشار خون (high blood روزے رکھنا مناسب pressure) اور دل کے ایسے مریض، جو خون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے طویل الاثر دوا کفایت کرسکتی ہے اور وہ روزہ  رکھ سکتے ہیں، کیونکہ روزے سے وزن میں کمی واقع ہوگی اور بلڈپریشر بھی کم رہے گا۔ تاہم ان مریضوں کو ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھنا چاہیے۔ لیکن شدید ہائیپر ٹینشن اور امراضِ قلب میں مبتلا مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔
۴- جن لوگوں کے گردوں کے فعل میں کمی آگئی ہے ، ان میں روزہ رکھنے سے پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ جن مریضوں کے گردے خراب ہوچکے ہیں اور ان کے خون کی ڈیالیسس (dialysis) ہوتی رہتی ہے، ان میں دو ڈایالیسس کے درمیانی وقفہ میں پوٹاشیم میں اضافہ اور وزن میں زیادتی ہوسکتی ہے، جسم کے تیزاب میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ اگر یہ لوگ رات کو زیادہ کھالیں گے تو وزن بڑھ کر نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ان افراد کو روزے نہیں رکھنے چاہیں۔ جن کا گردہ تبدیل ہوچکا ہے اور اس کا فعل درست ہے، ان کو روزے سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا لیکن انھیں اپنے معالج سے مشورہ کرلینا چاہیے۔
۵- مرگی کے مریضوں کو روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
۶- درد گردہ اور معدے کے السر میں مبتلا افراد کے لیے نہیں، کیونکہ پانی کی کمی کے باعث گردے میں درد ہونے کا احتمال ہے۔ اسی طرح السر کے مریض بھی خالی معدے کی حالت میں زیادہ تکلیف سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
۷- بوڑھے افراد جو دماغ کی رگوں کے مرض میں مبتلا ہیں، ان میں روزے سے اشیا کو شناخت کرنے کی صلاحیت گھٹ سکتی ہے۔
۸- حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزے نہ رکھیں کیونکہ حاملہ خواتین میں خون کی گلوکوز اور انسولین میں کمی ہوجاتی ہے۔ دودھ پلانے والی خواتین کے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ نمک اور یورک ایسڈ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ماں کے دودھ کی لیکٹوز (شکر)، سوڈیم اور پوٹاشیم میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس لیے بچے کی صحت قائم رکھنے کے لیے روزہ نہ رکھا جائے۔   (بشکریہ معارف، اعظم گڑھ ، اگست ۲۰۱۰ء)