Sunday, February 8, 2015

دور حاضر میں سیرت نبیوی کا ایک نمونہ

۸؍فروری  ۲۰۱۵ء
آج صبح سے حضور داعی اسلام سے ملاقات کی خواہش دل میں بے دار تھی لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔ مجلس کا انتظار کیا لیکن مجلس منعقد نہیں ہوئی۔
ساڑھے باہ بجے جب تجوید و قرأت کا مسابقہ ختم  ہوا  اور دستر خوان بچھایا گیا تو میں غسل کرنے چلا گیا اور کھانا نہ کھا سکا۔
غسل سے فارغ ہونے کے بعد میں اکیڈمی کے دفتر میں آیا۔ اتنے میں میرے کانوں میں میاں حضور کی آواز آئی۔میاں حضور کچھ فرمارہے تھے۔میں فوراً باہر نکلا میاں حضور  فرمارہے تھے کہ کہیں پانی گر رہا ہے کیا؟ کہیں پانی گر رہا ہے کیا؟ یہ فرماتے ہوئے آپ وضو خانے کی طرف جارہے تھے۔پانی کے  گرنے کی آواز تیز آرہی تھی۔پتہ چلا کہ وضو خانے کے اوپر کی ٹنکی بھر چکی تھی اس لیے پانی  زیادہ ہو کرگر رہا تھا۔مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا کہ بیٹا  دیکھو ذرا موٹر بند کردو میں دوڑتا ہو اگیا اور موٹر بند کردیا۔میاں حضور جدید ہاسٹل کی طرف چل دیےاور میں باورچی خانے کی طرف  ،تاکہ جاکر کھانا  کھا لوں۔میں سوچ رہا تھا کہ دیکھو بندہ کس قدر چاق و چوبند رہتا ہے  ،اگر اس وقت نہ آتے تو پتہ نہیں کب تک پانی بہتا رہتا۔ میں باورچی خانہ پہنچ گیا۔تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ  میاں حضور بھی تشریف لا رہے ہیں۔
میرے دل میں خوف پیدا ہو اکہ کہیں میاں حضور پوچھ نہ لیں کہ اب تک کیا کر رہے تھے ؟ سب ساتھ کھا نا  کیوں نہ کھایا؟
علامہ صاحب بھی ساتھ  تھے ۔ نزدیک آئے۔  اویس بھائی سے پوچھ گچھ کی، چند مشورے دیے اور چل دئیے۔
کافی دور چلے گئے    ۔دیکھا کہ پھر واپس آرہے ہیں ۔ قریب آئے تو اویس بھائی سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ :
بیٹا اویس! ارہر دال اور گوشت کو ملا کر اگر دالچہ بنایا جائے  تو بہت مزیدار بنتا ہے۔ میں نے ممبئی میں کھا یا تو بہت اچھا لگا۔ کسی دن یہی بنائو ۔اویس بھائی نے کہا کہ جی حضور اس جمعہ کو  بنادیتے ہیں۔میاں حضور چلے گئے۔
جانے کے بعد طالب نامی ایک طالب علم جو درجہ سادسہ میں پڑھ رہے ہیں اور اس وقت میرے ساتھ  کھانا کھا رہے تھے، نے کہا کہ مولانا صاحب دیکھا آپ نے ؟ اگر میاں حضور چاہتے تو  جہاں تک گئے تھے وہیں سے   کسی  سے کہلوا دیتے کہ کہ جائو اویس کو جاکر یہ بات بتا دو۔ لیکن اتنی چھوٹی سی بات کہنے کے لیے اتنی دور سے خود چل کر آئے ۔حالاں کہ علامہ صاحب بھی ساتھ ہی تھے اگر چاہتے تو انہیں کو دوڑا دیتے لیکن  ایسا نہیں کیا ؟

میں نے کہا ہاں طالب بھائی! ان کی ہر اداسے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

Thursday, February 5, 2015

Awaaz Dil ke taron ki ٓ دل کے تاروں کی آواز

۵؍ فروری ۲۰۱۵ء بروز جمعرات:
آج میاں حضور مد ظلہ ممبئی سے تشریف لائے۔ دل بہت بیتاب تھا ان سے ملنے کے لیے ۔ملاقات کو کافی دن جو ہوگئے تھے ۔جب ممبئی گئے تھے تب بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔اور آج جب آئے تب بھی نہیں دیکھ سکے۔
بہر حال عصر بعد دیدار کیا،چہرے میںوہی تازگی، وہی چمک ،وہی دمک بلکہ آج حسن میں اضافہ ہی تھا ۔بندے کو جب بھی دیکھا زیادہ اور زیادہ کے مصداق پایا ۔عاشقوں کے جھرمٹ میں بہت پیارے لگ رہے تھے ۔دل کر رہا تھا کہ جاکر پیشانی چوم لوں ،لیکن اب تو دل کو قابو میں رکھنے کی عادت  سی ہو گئی ہے۔
تقریبا دس منٹ کھڑے کھڑے مجلس ہوئی ،روز کی طرح آج بھی اپنی ذکاوت اور اعلی فکر و خیال کے موتی لٹا رہے تھے۔میں آج بھی سوچتا ہوں کہ وہ دن تھا جب میں ان کو جانتا بھی نہیں تھا  اور ایک آج دن ہے جس کی آواز سدننے کو دل ترستا رہتا ہے۔کتنا اچھا لگتا ہے جب وہ بولتے ہیں، کتنا اچھا لگتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں ۔ کتنا اچھا لگتا ہے جب وہ چلتے ہیں ۔کتنے بھلے لگتے ہیں وہ جب وہ مسکراتے ہیں ۔کیوں صرف  انہیں کو دیکھنے کا دل کرتا ہے ؟ کیوں صرف ان کی باتیں کرنے کی خواہش ہوتی ہے ؟ کیا ہے بنے میں ؟ کیسی کشش ہے ان میں ؟ دنیا  میں اور بھی لوگ تو ہیں لیکن ان سے اس طرح کا تعلق کیوں نہیں ہے؟ ہاں ازہری صاحب بھی تو ہیں جن کے پاس بیٹھنے سے دل کو سکون محسوس ہوتا ہے ۔لیکن  یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا صرف اس لیے ہے کہ وہ میاں حضور کے بہت نزدیک ہیں ْمیاں کے طیقے کے بہت قریب ہیں۔ہاں ہاں اسی لیے صرف اسی لیے۔
کیوں یہ بندہ اتنا اچھا لگتا ہے مجھے ؟کیا مجھے ان محبت ہوگئی ہے؟َ کا اسی کا نا م محبت ہے ؟ اگر ہاں تو اقرار!, سو بار اقرار کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں ۔میں اعلان کرتا ہوں کہ ہاں ہاں مجھے ان سے محبت ہوگئی ہے۔
سرکار میاں حضور ! مھجے آپ سے محبت ہو گئی ہے۔I Love You Sarkaar I Love Yove  سیکڑوں بار آئی لو یو۔

میاں حضور اس وقت بڑے اساتذہ کے ساتھ میٹنگ فرمارہے ہیں۔ مصر کے وائس چانسلر جو آ رہے ہیں ۔۱۲ فروری کو یوم غزالی کے موقعے پر تشریف آوری ہو رہی ہے ان کی ۔ اس لیے سبھی  اس پروگرام کی تیاری میں مصروف ہیں۔اور میں اکیڈمی میں بیٹھے ان کی یادوں میں مصروف ہوں۔