Monday, November 16, 2015

سادگی پگلوں کی دیکھ ، غیروں کی عیاری بھی دیکھ

 ،،
پشاور میں بچوں کا قتلِ عام ھوا تو ،،، دلیل تھی کیا امریکہ نے بچے نہیں مارے،،،،،،،،،،،،،،،
فرانس میں نہتے بے گناہ مرد بچے عورتیں مارے تو دلیل ھے ،، کیا برما میں مسلمان نہیں مرے تھے،،
سبحان اللہ ،،،،،،،،،،،،، اس کا مطلب ھے کہ اگر یہ دلیل دینے والوں کا بس چلے تو یہ بھی یہی کام کر گزریں گے ،،،،،،،،،،،،،،،،،
کیا حضرت بلالؓ ، حضرت یاسرؓ اور سمیہؓ پہ مظالم نہیں ھوئے تھے ،،
پھر کیا اس کے نتیجے میں اللہ کے رسول ﷺ نے کوئی انڈر گراؤنڈ قاتل گروہ تیار کیا تھا جو مکے والوں کے مردوں اور عورتوں کو قتل کرتا ،،،،،،،،،،،،،،،
اگر حضورﷺ بھی یہی پالیسی اختیار فرماتے تو شاید اس گروہ کو مکے میں ھی کچل دیا جاتا اور آج دنیا اسلام کے نام سے بھی واقف نہ ھوتی ،،، اس کے برعکس اللہ نے حکم دیا کہ ھاتھوں کو باندھ کر رکھو اور نماز کو قائم رکھو ،، عبداللہ ابن مسعودؓ نے ایک کافر کو جوابی تھپڑ دے مارا تو اللہ کے رسولﷺ نے ان پر غصہ کیا اور فرمایا کہ اگر صبر نہیں کر سکتے تو اپنے قبیلے میں چلے جاؤ ،جب اللہ اسلام کو غلبہ دے گا تو اس وقت آ جانا ،،،
ھمارے پاس دعوت ھے کافر کے پاس تلوار ھے ،، ھماری دعوت ان کی تلوار سے طاقتور ھے ،، جبکہ ھماری تلوار ان کی تلوار سے کمزور ھے ، وہ تو یہ چاھتے ھیں کہ ھمیں گھسیٹ کر اس میدان میں لے جائیں جہاں وہ طاقتور ھیں یعنی جنگ کا میدان اور جنگی اسلحہ،،، جبکہ ھمیں چاھئے کہ ھم دعوت کے لئے سازگار ماحول پیدا کریں اور انسانیت کے ساتھ انٹرایکشن بڑھائیں کیونکہ یہی انسانیت ھماری مارکیٹ ھے جہاں ھم نے اپنی دعوت کو بیچنا ھے ،ھم اپنے گاھک ھی مار دیں گے تو کیا کٹے ھوئے سروں کو دعوت پیش کریں گے ؟
ھماری دعوت کی طاقت کا یہ عالم ھے کہ اللہ کے رسولﷺ نے حدیبیہ کے میدان میں صرف اس شرط پر کہ مجھے تبلیغ کا موقع دے دو لکھا ھوا محمد رسول اللہ ،اپنے انگوٹھے سے مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھا تھا ، اور صحابہؓ کی مخالفت اور عمر فاروق جیسے مدبر کے دباؤ کے باوجود آپ نے ایک ھی جملہ کہا ،،میں اللہ کا رسول ھوں اور مجھ پر صرف اللہ کا حکم ماننا فرض ھے ،،
اللہ پاک نے کفار کی طرف سے مسلمانوں کو تبلیغ کی اجازت دینے کو فتحِ مبین قرار دیا ،، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جو 1400 تھے دو سال بعد 10000 کی تعداد میں مکہ میں فاتحانہ داخل ھوئے ، مسلمان اپنی دعوت اور اپنی آبادی کی وجہ سے یورپ کے کئ ممالک کے لئے ایک سیریس مسئلہ بن گئے تھے ، وہ خوفزدہ تھے کہ آئندہ دس سال میں جمہوری عمل کے نتیجے میں اسلامک اسٹیٹ آف امریکہ نہ بن جائے ،کیونکہ مسجد عمر ابن الخطاب کا دروازہ ایک دفعہ کھل کر بند ھوتا تھا تو ایک امریکی مسلمان ھو چکا ھوتا تھا ،،،،،،،،
پھر یہود نے وہ چال چلی جس کے سامنے اللہ پاک کے فرمان کے مطابق پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دیتے ھیں ،، و ان کان مکرھم لتزول منہ الجبال " پہلے اسامہ اینڈ کمپنی کو ٹریپ کیا گیا یہود نے انہیں ھر طرح سے سہولیات فراھم کیں اسکینرز سے اسلحے سمیت نکالا ، اپنے اسکولوں میں ان کو پائلٹس کی تربیت دی اور پھر نائن الیون کرا کر امریکی رائے عامہ کو مخالف کیا ،، اور افغانستان ، عراق ،لیبیا جیسے ممالک کا قلع قمع کیا جو اسرائیل کے لئے خطرہ تھے ،، کشمیر کے جہاد کو سبوتاژ کیا ،، اب جبکہ ان کے عوام کی آنکھیں دوبارہ کھل رھی تھیں اور وہ آوازیں بلند ھو رھی تھیں جن میں یہود کا کردار واضح کرنے کے لئے کمیٹی بنانے پر زور دیا جا رھا تھا ،،
اس پسِ منظر میں داعش کو ایجاد کیا گیا ، مذھبی جنونیوں کو دوبارہ ٹریپ کیا گیا کہ بس تمہاری خلافت قائم ھوئی کہ ھوئی ،، اب شام اور یمن تباھی کا گڑھ بن گئے جبکہ لبنان اور ایران کو مصالحہ لگا کر رکھ لیا گیا تا کہ ذرا نمک ٹھیک طرح سے دھنس جائے تو پھر فرائی کریں گے ،، ایجنسیاں اپنے وسیع تر مفاد مین پالیسی کے طور پر عوام پر حملے کرنا یا کرانا اور اپنے بڑے مقاصد کے لئے چھوٹے مقاصد کو بطور چارہ قربان کرنے جیسی حرکتیں کرتی آئی ھیں ،، امریکہ نے دوسری جنگِ عظیم میں اپنی مداخلت کو جائز بنانے کے لئے خود موقع فراھم کیا تھا کہ جاپان اس پر حملہ کرے ،، بلکہ بعض معلومات کے مطابق وہ حملہ خود ھی کرایا گیا تھا ،،
مگر اس سب کا نتیجہ ھمیشہ اسلام کی بدنامی کی صورت نکلتا ھے ،، یہ جنونی لمبی سوچ کے مالک نہیں ھوتے ،،بندے مارنے سے نہ ملک فتح ھوتے ھیں اور نہ ھی ملک چلائے جا سکتے ھیں ،، فرانس کا کیا گیا ھے ؟ اتنے بندے تو ھمارے یہاں ایک حادثے میں مارے جاتے ھیں ،، چاھے وہ فیکٹری کا ھو یا جہاز کا ،، مگر اسے حاصل بہت کچھ ھو گیا ھے ،، جس کا نتیجہ بہت جلد نکلے گا ،، شام اور لبنان فرنس کی نوآبادیاں یعنی داشتائیں تھیں ،، وہ انہیں امریکی ھاتھ میں نہیں جانے دینا چاھتا ،مگر جنگ میں جانے کے لئے اسے ایک طاقتور جواز کی ضرورت تھی ،جس کے لئے درجن بھر پاگل اسے مل گئے ،،
نامعلوم رائٹر

جہاں جہاں وہ گیے


 ملک عزیز کے موجودہ وزیر اعظم کے ملکی و بیرونی ملکی دوروں کے مابعد رونما ہونے والے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ واقعی “پنوتی" ہوتے ہیں جس کے گناہوں کا وبال ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے. مودی کے دامن میں "نسل کشی" کے گناہ عظیم کا ایسا داغ ہے جو اسے فرعون ، نمرود، چنگیز اور ہٹلر کے صف میں کھڑا کرنے کے لیے کافی ہے. یہی وجہ ہے کہ گناہوں کا یہ وبال وہ اپنے ساتھ ساتھ لیے پھر تے ہیں. مثلا، وزارت کے بعد پہلا دورہ کشمیر ........ پورا مقبوضہ کشمیر بد ترین سیلاب کا شکار ہوگیا.
آسٹریلیا گیے.......وزیر اعظم ٹونی ایبٹ اپنی ہی پارٹی سے بے دخل کر دیے گیے.
 کینیڈا گیے.........اسٹیفن ہارپر کا دس سالہ اقتدار کا تختہ پلٹ گیا،
غریب ملک نیپال گیے........ خوفناک زلزلہ نے نیپال کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا،
 چین گیے ........ وہاں کی معیشت زوال پزیر ہوگئی، متحدہ عرب امارات گیے.......سلطان کا جوان بیٹا داعی اجل کو لبیک کہ دیا،      جر منی گیے.........کار بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی “واکس ویگن“  پر سب سے بڑی دھوکہ باز کمپنی ہونے کی چھاپ لگ گئی،
آخر میں بہار آئے.......چالیس خطابات کیے..... پارٹی چالیس سے بھی کم سیٹوں میں سمٹ گئی،
دورہ یوپ میں مصروف ہیں.......... پیرس کے داعش حملے سے پورا یورپ دھل اٹھا. اب   ع ،
 آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا؟ اس موقع پر بغیر کسی تبصرہ کے  سعدی شیرازی کا یہ شعر

ماری تو کہ ہر کرا بہ بینی بزنی یا بوم! کہ ہر کجا نشینی بہ کنی


✏انصار احمد مصباحی✏
      14/11/2015

Tuesday, November 3, 2015

کمزور ایمان

صبح ۵/ بجکر ۱۰ منٹ پر الارم بج اٹھا.نیند کی لذت اپنے شباب پر تھی. الارم کی مسلسل آواز نیند میں خلل پیدا کررہی تھی.الارم بند کیا پھر نیند کے مزے لوٹنے لگا اتنے میں پھر الام کی گھنٹی بجی. اس وقت یہ مسلسل آواز بہت بری لگ رہی تھی. مرتا کیا نہ کرتا اٹھنا ہی پڑا کیوں کہ نماز پڑھانی تھی.
وضو کرنے کے بعد جب میں بیٹھا تو اپنی تھوڑی دیر پہلے کی حالت کے بارے میں سوچنے لگا کہ اس وقت اٹھنے میں کس قدر تکلیف محسوس کررہا تھا اب کس قدر نشاط ہے!
پھر خیالات کا سلسلہ ایک الگ رخ اختیار کرگیا.میں سوچنے لگا کہ مجھ پر امامت کی ذمہ داری تھی اس لیے اٹھ گیا.  تو کیا اگر یہ ذمہ داری نہ ہوتی تو نہ اٹھ پاتا؟
کیا واقعی یہ حادثہ آج پیش آجاتا حالاں کہ آج کئی سالوں سے سفر میں وہ بھی کبھی کبھی کے علاوہ کوئی نماز قضا نہیں ہوئی ؟
پھر بھی کیا ایسا ہوسکتا تھا کہ اگر ذمہ داری نہ ہوتی تو نماز قضا ہوجاتی؟
لیکن نیند کی وہ غفلت بتا رہی تھی کہ ایسا واقعہ بھی پیش آسکتا تھا.خدا نہ کرے کہ ایسا کبھی ہو.
آج مجھے امامت کی ذمہ داری کی اہمیت مزید واضح ہوگئی کہ کم از کم اس بہانے اپنے فرض کی ادائیگی تو ہوجاتی ہے.
لیکن ساتھ ہی اپنی بے چارگی اور ایمانی کمزوری کا بھی احساس ہوا  کہ اب تک ایمان اتنا بھی  مضبوط نہیں ہو سکا کہ سالوں کی ممارست کے باوجود صرف اللہ کے خوف سے نماز کے لیے اٹھ سکیں.
پھر آج جو ایمان ہمیں نماز کے لیے نہیں اٹھا سکتا اور کو کمزور ایمان ہمیں مسجد تک نہیں لے جا سکتا .کیا ایسا کمزور ایمان ہمیں جنت تک لے جا سکے گا ؟؟؟

ناظم اشرف مصباحی
۲۹/ اکتوبر ۲۰۱۵ ء 

پرواز خیال ( ذاتی تجربات اور غور و فکر کا نچوڑ)




"جس اقدام کے پیچھے مضبوط اور فولادی قوت ارادی نہ ہو. اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی بھر بھری زمین پر عمارت تعمیرکرنے کی کوشش کی جائے.جسے کبھی نہ کبھی منہدم ہونا ہی ہے.یاتو تعمیر سے پہلے ہی ہوا کا ایک ادنی سا جھونکا اس کی حقیقت کھول دیتا ہے .یا عمارت کھڑی کردینے کے بعد اسے زمین بوس ہونا ہے."


"انسان جب ایسے شخص کے ساتھ ہو جس کے پاس ایسا عہدہ یا حیثیت یا صلاحیت ہو جو اس کے پاس نہیں ہے.اگر وہ انسان احساس کمتری کا شکار ہو تو اس شخص سے بدگمان ہوجاتا ہے اور ہر چھوٹی چھوٹی بات میں اسے لگتا ہے کہ سامنے والا شخص اپنا عہدہ/حیثیت/صلاحیت استعمال کررہا ہے."اس وقت وہ لاشعوری طور پر احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے.

انسان جب کسی عمل یا قول سے کوئی نظریہ قائم کرتا ہے اگر وہ نظریہ اس کی سابقہ زندگی یا طرزفکر کے موافق ہو تو وہ اس پر مطمئن ہوجاتا ہے. پھر اگر کسی کی تائید بھی حاصل ہوجائے تو وہ اس پر جم جاتا ہے.اب چاہے خود اس عمل کو انجام دینے والا یا اس قول کا قائل الگ معنی بیان کرے تو حق واضح ہونے کے بعد بھی اپنے سابقہ قول سے دست بردار ہونا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے.
( اگلی امتوں پر جو عذاب آئے وہ اسی انکاری کیفیت کے بعد آئے تھے کہ انبیائے کرام کی جانب سے حق واضح کردینے کے بعد بھی کفر پر جمے رہے.)

ہماری جماعت میں ایک عام بیماری پائی گئی ہے کہ ایک شخص کسی قول سے ایک غلط معنی اخذ کرتا ہے.اب خودقائل اس کی وضاحت کرتا ہے کہ "میری مراد یہ تھی" لیکن وہ کہتا ہے" نہیں آپ نے یہ کہا" قائل پھر کہتا ہے " لیکن میری مراد یہ ہے" وہ پھر کہتا ہے " نہیں آپ نے یہ کہا،فلاں اس پر گواہ ہے." قائل جواب دیتا ہے کہ: " وہ تو ٹھیک ہے لیکن ان الفاظ سے میری مراد یہ ہے اور اس پر دلیل یہ ہے،اس کی وجہ یہ ہے." وہ شخص پھر کہتا ہے: "لیکن آپ نے یہ کہا ہے اور اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے"  ھلم جری......

ناظم اشرف مصباحی
۱/ نومبر ۲۰۱۵ ء بروز اتوار

Sunday, February 8, 2015

دور حاضر میں سیرت نبیوی کا ایک نمونہ

۸؍فروری  ۲۰۱۵ء
آج صبح سے حضور داعی اسلام سے ملاقات کی خواہش دل میں بے دار تھی لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔ مجلس کا انتظار کیا لیکن مجلس منعقد نہیں ہوئی۔
ساڑھے باہ بجے جب تجوید و قرأت کا مسابقہ ختم  ہوا  اور دستر خوان بچھایا گیا تو میں غسل کرنے چلا گیا اور کھانا نہ کھا سکا۔
غسل سے فارغ ہونے کے بعد میں اکیڈمی کے دفتر میں آیا۔ اتنے میں میرے کانوں میں میاں حضور کی آواز آئی۔میاں حضور کچھ فرمارہے تھے۔میں فوراً باہر نکلا میاں حضور  فرمارہے تھے کہ کہیں پانی گر رہا ہے کیا؟ کہیں پانی گر رہا ہے کیا؟ یہ فرماتے ہوئے آپ وضو خانے کی طرف جارہے تھے۔پانی کے  گرنے کی آواز تیز آرہی تھی۔پتہ چلا کہ وضو خانے کے اوپر کی ٹنکی بھر چکی تھی اس لیے پانی  زیادہ ہو کرگر رہا تھا۔مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا کہ بیٹا  دیکھو ذرا موٹر بند کردو میں دوڑتا ہو اگیا اور موٹر بند کردیا۔میاں حضور جدید ہاسٹل کی طرف چل دیےاور میں باورچی خانے کی طرف  ،تاکہ جاکر کھانا  کھا لوں۔میں سوچ رہا تھا کہ دیکھو بندہ کس قدر چاق و چوبند رہتا ہے  ،اگر اس وقت نہ آتے تو پتہ نہیں کب تک پانی بہتا رہتا۔ میں باورچی خانہ پہنچ گیا۔تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ  میاں حضور بھی تشریف لا رہے ہیں۔
میرے دل میں خوف پیدا ہو اکہ کہیں میاں حضور پوچھ نہ لیں کہ اب تک کیا کر رہے تھے ؟ سب ساتھ کھا نا  کیوں نہ کھایا؟
علامہ صاحب بھی ساتھ  تھے ۔ نزدیک آئے۔  اویس بھائی سے پوچھ گچھ کی، چند مشورے دیے اور چل دئیے۔
کافی دور چلے گئے    ۔دیکھا کہ پھر واپس آرہے ہیں ۔ قریب آئے تو اویس بھائی سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ :
بیٹا اویس! ارہر دال اور گوشت کو ملا کر اگر دالچہ بنایا جائے  تو بہت مزیدار بنتا ہے۔ میں نے ممبئی میں کھا یا تو بہت اچھا لگا۔ کسی دن یہی بنائو ۔اویس بھائی نے کہا کہ جی حضور اس جمعہ کو  بنادیتے ہیں۔میاں حضور چلے گئے۔
جانے کے بعد طالب نامی ایک طالب علم جو درجہ سادسہ میں پڑھ رہے ہیں اور اس وقت میرے ساتھ  کھانا کھا رہے تھے، نے کہا کہ مولانا صاحب دیکھا آپ نے ؟ اگر میاں حضور چاہتے تو  جہاں تک گئے تھے وہیں سے   کسی  سے کہلوا دیتے کہ کہ جائو اویس کو جاکر یہ بات بتا دو۔ لیکن اتنی چھوٹی سی بات کہنے کے لیے اتنی دور سے خود چل کر آئے ۔حالاں کہ علامہ صاحب بھی ساتھ ہی تھے اگر چاہتے تو انہیں کو دوڑا دیتے لیکن  ایسا نہیں کیا ؟

میں نے کہا ہاں طالب بھائی! ان کی ہر اداسے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

Thursday, February 5, 2015

Awaaz Dil ke taron ki ٓ دل کے تاروں کی آواز

۵؍ فروری ۲۰۱۵ء بروز جمعرات:
آج میاں حضور مد ظلہ ممبئی سے تشریف لائے۔ دل بہت بیتاب تھا ان سے ملنے کے لیے ۔ملاقات کو کافی دن جو ہوگئے تھے ۔جب ممبئی گئے تھے تب بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔اور آج جب آئے تب بھی نہیں دیکھ سکے۔
بہر حال عصر بعد دیدار کیا،چہرے میںوہی تازگی، وہی چمک ،وہی دمک بلکہ آج حسن میں اضافہ ہی تھا ۔بندے کو جب بھی دیکھا زیادہ اور زیادہ کے مصداق پایا ۔عاشقوں کے جھرمٹ میں بہت پیارے لگ رہے تھے ۔دل کر رہا تھا کہ جاکر پیشانی چوم لوں ،لیکن اب تو دل کو قابو میں رکھنے کی عادت  سی ہو گئی ہے۔
تقریبا دس منٹ کھڑے کھڑے مجلس ہوئی ،روز کی طرح آج بھی اپنی ذکاوت اور اعلی فکر و خیال کے موتی لٹا رہے تھے۔میں آج بھی سوچتا ہوں کہ وہ دن تھا جب میں ان کو جانتا بھی نہیں تھا  اور ایک آج دن ہے جس کی آواز سدننے کو دل ترستا رہتا ہے۔کتنا اچھا لگتا ہے جب وہ بولتے ہیں، کتنا اچھا لگتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں ۔ کتنا اچھا لگتا ہے جب وہ چلتے ہیں ۔کتنے بھلے لگتے ہیں وہ جب وہ مسکراتے ہیں ۔کیوں صرف  انہیں کو دیکھنے کا دل کرتا ہے ؟ کیوں صرف ان کی باتیں کرنے کی خواہش ہوتی ہے ؟ کیا ہے بنے میں ؟ کیسی کشش ہے ان میں ؟ دنیا  میں اور بھی لوگ تو ہیں لیکن ان سے اس طرح کا تعلق کیوں نہیں ہے؟ ہاں ازہری صاحب بھی تو ہیں جن کے پاس بیٹھنے سے دل کو سکون محسوس ہوتا ہے ۔لیکن  یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا صرف اس لیے ہے کہ وہ میاں حضور کے بہت نزدیک ہیں ْمیاں کے طیقے کے بہت قریب ہیں۔ہاں ہاں اسی لیے صرف اسی لیے۔
کیوں یہ بندہ اتنا اچھا لگتا ہے مجھے ؟کیا مجھے ان محبت ہوگئی ہے؟َ کا اسی کا نا م محبت ہے ؟ اگر ہاں تو اقرار!, سو بار اقرار کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں ۔میں اعلان کرتا ہوں کہ ہاں ہاں مجھے ان سے محبت ہوگئی ہے۔
سرکار میاں حضور ! مھجے آپ سے محبت ہو گئی ہے۔I Love You Sarkaar I Love Yove  سیکڑوں بار آئی لو یو۔

میاں حضور اس وقت بڑے اساتذہ کے ساتھ میٹنگ فرمارہے ہیں۔ مصر کے وائس چانسلر جو آ رہے ہیں ۔۱۲ فروری کو یوم غزالی کے موقعے پر تشریف آوری ہو رہی ہے ان کی ۔ اس لیے سبھی  اس پروگرام کی تیاری میں مصروف ہیں۔اور میں اکیڈمی میں بیٹھے ان کی یادوں میں مصروف ہوں۔