Tuesday, December 3, 2013

زندگی کے سہانے لمحے

آج نماز فجر سے فارغ ہوا تو ذہن میں سب سے پہلے جو بات آئی وی یہ تھی کہ شیخ جامعہ میں موجود نہیں ہیں۔
ایک عجیب سی کمی محسوس ہونے لگی۔
دل گھبرا نے لگا۔
کہ سرکار جامعہ میں موجود نہیں ہیں۔
 اس کیفیت کا اثر یہ ہوا کہ آج بعد فجر میں سو نہ سکا۔
شیخ کا خیال ذہن میں بسائے 
سست قدموں کے ساتھ 
دعا میں شامل ہوا
صبح کی دعا 
جو دوسرے مدارس میں سلام کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دراصل تمام مدارس اسلامیہ میں کلاس کے آغاز سے پہلے تمام طلبہ اکٹھا ہوکر سلام پڑھتے  ہیں
لیکن جامعہ عارفیہ میں دعا پڑھی جاتی ہے
جس کو شیخ داعی اسلام مد ظلہ نے رقم فرمایا ہے۔
جس کا مطلع یہ ہے
      الف سے اللہ اسم ذات ہے                 ب سے باقی اس کی صفات ہے                                 
اور مقطہ یہ ہے 
 ی سے یاور اللہ اللہ                    شیخ  سعید احسان اللہ                                  
 مغموم حالت میں کلاس مکمل کیا تو پتہ چلا کہ شیخ ساڑھے دس بجے تک واپس تشریف لا رہے ہیں تو دل باغ باغ ہوگیا۔
خوشی خوشی میں گیٹ پر جاکر انتظار کر نے لگا
وہیں شیخ کے خلیفہ حضرت مولوی صاحب بھی موجود تھے 
انہوں نے کافی اچھی باتیں بتائیں
مختصر میں ایسا  درس دیا کہ ایمان میں واقعی تازگی محسوس کی 
اور ایکعجب کیفیت طاری ہو گئی
موصوف کا حال یہی ہے 
کہ جب بھی کوئی بات کہتے 

ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ

ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﻭﺡ ﺳﮯ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺡ
ﺗﺐ ﮨﯽ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﻠﮯ ۔ 

 
ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺁﭖ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ
ﻓﻼﮞ ﭼﯿﺰ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮍﯼ
ﺭﺍﺣﺖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﭼﯿﺰ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺁﭖ ﮐﻮ ﻭﯾﺴﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﻣﻠﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ
ﺩﻥ ﮐﺎ ﻧﺸﮧ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺎ
ﺗﻌﻠﻖ ﻧﻔﺲ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻔﺲ ﺍﯾﺴﮯ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ
ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻣﯿﮟ
ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ۔ .
ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﻗﺎﻧﻊ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ
ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ
ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ
ﻭﮦ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ۔

 
ﺳﭽﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻣﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﯿﺮ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ ﻣﻠﮯ ۔
ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻮﻝ ﺳﯿﭧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﮐﮧ
ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﺍﺱ ﺩﺭﺟﮯ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﻮﮞ
ﮔﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ
ﺁﭖ ﭘﺮ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺑﻨﺪ
ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺗﯿﮟ ، ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﺧﻮﺷﺒﻮ ۔ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﻋﻨﺎﯾﺎﺕ ، ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ
ﻗﺪﺭ ﺩﺍﻧﯿﺎﮞ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺁﭖ ﺍﻧﺠﻮﺍﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﺮ ﭘﺎﺗﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ
ﮨﭙﻨﺎﭨﺎﺋﺰ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﺱ
ﺩﺭﺟﮯ ﭘﺮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭼﯿﺰ ﻣﺠﮭﮯ
ﻧﮧ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺷﯽ
ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ۔ 

 
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻋﺰﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ
ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻧﯿﮏ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻋﻄﺎ
ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ

 
ﺁﻣﯿﻦ

Monday, December 2, 2013

29 November 2013 کی ڈائری

آج صبح  اٹھتے ہی کانوں میں فرغلی صاحب (مصر سے آئے ہوئے استاذ )کی آواز کانوں میں گونج گئی ۔ 
نماز سے فارغ ہوکر میں سوچنے لگا کہ کسی طرح فرغلی صاحب سے ملاقات ہوجائے ،لیکن ان کو اساتذہ کے درمیان گھرا ہوا دیکھ کر صبر کا شربت پینے میں ہی اکتفا کیا ۔
 میرے ذمے کافی کام تھے ۔سب بڑی ذمہ داری یہ تھی  کہ اشرفیہ سے آئے ہو ئے طلبہ کا خیال رکھنا تھا ۔ پتہ چلا کہ وہ لوگ 
 حماد کے ساتھ ہیں تو میں اس جانب سے بے فکرہو گیا ۔ میں رضی بھائی اور طارق بھائی کولے کر چائےپینے کو نکلا۔
وہاں سے فارغ ہوکر اشرفیہ سے آئے ہوئے اساتذہ مفتی بدر عالم ، مولانا زاہد سلامی اور مولانا نعیم صاحبان کے پاس چلا گیا ۔وہ لوگ جاگ رہے تھے ۔ ان کی کچھ ضروریات پوری کر نے کے بعد گفتگو ہوتی رہی ۔اس کے بعد ان کو لے کر فرغلی  دیر  صاحب کے پاس آیا۔ان سے کافی تک باتیں رہیں۔
اور تقریبا ساڑھے آٹھ بجے ان  سب کو حضور داعی اسلام سے ملاقات کے لیے لایا ۔مولانا ضیاء الرحمان صاحب مل گئے اور میں نے ان کو وہیں چھوڑا۔پھر فرغلی صاحب کے پاس آیا اور ان سے میری کافی دیر تک گفتگو ہوئی تب مجھے پتہ چلا کہ میں بھی عربی میں اچھی گفتگو کر سکتا ہوں کیوں میری فہم کے بر خلاف ان کی ساری باتیں مجھے سمجھ میں آ رہی تھی۔    میں بھی ان کے ساتھ توڑ مڑوڑ کر عربی بول رہا تھا۔ مذکر مونث کی تمیز کیے بغیر میری ساری توجہ صرف اس پر تھی کہ کسی طرح اپنی مافی الضمیر سے ان کو آگاہ کردوں۔
اب میں سوچ رہا تھا کہ کاش اس سے پہلے ہی یہ کوشش کر لی ہوتی آج یہ نوبت نہیں آتی۔
  ہمارے مدارس میں یہ ایک بہت بڑی کمی ہے کہ ان میں عربی بال چال کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے اور اگر طلبہ بات کرنا بھی چاہیں تو ایکچھوٹی سی غلطی پر اس طرح مذاق اڑایا جا تا ہے جیسے کوئی مبتدی نہیں بلکہ ایک ادیب بات کر رہا ہو۔
میرے خیال میں بچوں کو ابتدا میں  صحیح غلط ہر طرح کے جملے بولنےکی کوشش کرنی چاہیے کسی کی غلطی پر بالکل توجہ نہ دینی چاہیے۔کیوں کہ میں نے دیکھا کہ بعض جملے خود مصری استاذ صاحب بھی غلط بولتے تھے۔ ایسےموقع پر صرف اتنا خیال رہے کہ سامنے والا ہمارےما فی الضمیر سے آگاہ ہوجائے۔اور بس۔ 


Sunday, December 1, 2013

آج کا قول زریں

Nazim Ashraf QOUTE

28 November 2013 کی ڈائری

آج کا دن میرے لیے ایک یادگار دن رہا،کیوں کہ آج جمعرات کا دن ہے اور خانقاہ عارفیہ میں اکیس کی فاتحہ ہے۔ اکیس کی 
فاتحہ وابستگین سلسلہ چشتیہ صفویہ محمدیہ  سعیدیہ کے لیے عید کا دن ہوا کرتا ہے اس لیے کچھ لوگ اسے عاشقوں کی عید 
بھی کہتے ہیں۔
دوسری جہت سے آج اس لیے بھی یاد گار رہا کہ آج جامعہ عارفیہ میں مصر سے ایک استاذ تشریف لائے ہیں ۔ موصوف کا 
نام  شیخ عبداللطیف خلف عبد اللطیف فرغلی ہے۔
موصوف کو جامعہ ازہر کی جانب سے بھیجے گئے  ہیں۔ ان کے آنے جانے کے اخراجات ار ماہانہ مشاہرےر سب کچھ جامعۃ
 الازہر کے ذمے رہے گا۔
اس لحاظ سے یہ جامعہ عارفیہ کی انفرادیت ہے کہ یہاں مصر سے کوئی استاذ پڑھانے کے لیے آرہے ہیں۔ ہندوستان میں کسی
 بھی مدرسے کو یہ شرف حاصل نہیں ہے۔
اور ایک طالب علم ہونے کے لحاظ سے میں بھی ان ممتاز طلبہ میں سے ہوں جن کو مصر یعنی ایک خالص عربی استاذ سے 
پڑھنے کا موقع ملے گا۔ اس پر مستزاد میری خوش نصیبی یہ بھی ہے کہ میں جامعہ کے خصوصی کورس  ڈپلومہ ان دعوہ کا 
طالب علم ہوں اور ان سے سب سے زیادہ استفادہ کا موقع مجھے ملےگا۔ 
اب بس اللہ سے دعا ہے کہ مجھے ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔آمین